بنانی تھی مدینہ کی ریاست
مگر بنیاد تو
کوفہ کی رکھ دی
بنا ہے حکمراں یہ کہہ کے تو کہ
کروں گا کوئی نہ میں
کام ایسا
جو کر گئے آج سے
پہلے کے حاکم
مگر پھر آج تو
مجبور کیوں ہے
کبھی جو کام تھے
یزید کے وہ
وہی ہے آج تیری مجبوری
نہ ہو جس دیس میں
انصاف پورا
جہاں قانون کا
نہ ہو بسیرا
ہم ایسے دیس کے
باسی ہیں لوگوں
جہاں مجرم کو دی جاتی ہے
جینے کی آزادی
جو معصوم
محب وطن ہیں
اسی پہ تانی بندوقیں
گئی ہیں
بہایا خون مظلوموں کا ایسے
فلک بھی رو پڑا ہے آج دیکھو
بچھڑے بچوں سے ہیں
ماں باپ انکے
ہوئے بے آسرا وہ آج کیسے
ہے ساہیوال میں
برپی قیامت
زمیں ہے سرخ
مظلوموں کے خوں سے
کہوں کیا
لفظ اب ملتے نہیں ہیں
محافظ بھیس میں ہیں
قاتلوں کے
تو اب فریاد بھی
کس سے کریں ہم
حکومت تو مگر سوتی رہے گی رعایا کو دو کروڑ دیتی رہے گی
خون بہتا رہے گا، کوفہ سجتا رہے گا
1 thought on “سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات”