fbpx
بزم

مکہ کے ہیروز

آج کی دنیا کو ایک ایسی کیفیت کا سامنا ہے جب انسان بیماری کے ساتھ ساتھ اکیلے پن کی اذیت سہنے پر بھی مجبور ہے اور پھر اس پر ستم یہ کہ انسان اپنے پیاروں کی حفاظت کی خاطر خود اپنے آپ کو تنہائی میں قید کر تا ہے۔ ایسے میں ایک سنگین بیماری اس وقت اور زیادہ سنگین بن جاتی ہے جب آپ دیار غیر میں اپنوں سے دور ہوں اور پھر آپ کسی دوسری ایسی زبان سے بھی مکمل طور پر ناآشنا ہوں جس میں بات کر کے آپ اپنی تکلیف دوسروں کو بتا سکیں اور مدد لے سکیں۔ مکہ میں رضاکارانہ ہیلتھ ورکرز کرونا کی مریضہ کی مدد کرتے ہوئے سلمان الشریف، سعودی عرب میں اس ٹیم کے ممبر ہیں اور رضاکارانہ طور پر ایسے لوگوں

بزم

کررونا وائرس اور ہم پاکستانی

کیا ہم واقعی قوم کی خدمت کررہے ہیں؟ ایک وقت تھا جب کوئی مصیبت یا موذی وبا انسان کو آ گھیرتی تھی تب سب آپس میں یک جان ہو کر توبہ تلا کرتے اور اللہ کی بارگاہ میں اس کے حضور سجدہ ور ہوکر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے، اور آذان دیتے مگر افسوس سد افسوس آج اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے۔ اگر دشمن دکھ رہا ہو تو اس کو مات دینا یا اس کا مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے، مگر یہاں پر تو دشمن نہ صرف آنکھوں سے اوجھل ہے بلکہ یہ بھی نہیں پتا کہ یہ کس طرف سے ہم پر وار کرے گا، ایسے دور میں ہم نے کررونا وائرس جس کو کووڈ 19 بھی کہتے ہیں پرمختلف مذاق بنانا شروع کردیئے اور  نہ صرف مذاق بلکہ

بزم

مرحبا

خیر مقدم انسان کی پیدائش سے لے کر کوچ کرنے تک ہر شخص کئی مراحل سے گزرتا ہے، کٹھن بھی آرام دہ بھی اور جب بھی وہ ایک مرحلہ پار کرلیتا ہے تو احساس کرتا ہے کے گزشتہ واقعہ بڑی حکمت کا تھا، یا تو کچھ سکھا گیا یا آزما گیا اور کچھ نہیں بھی تو مسکرانے کا  یہ پچھتانے کاسبب بن گیا۔ ہم اکثر اپنی زندگی بحث، مباحثہ، مقابلے اور اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں لگا دیتے ہیں اور ایک لا حاصل قسم کی جدو جہد اپنے پر تاری کیئے رکھتے ہیں، اور ایسے میں کہیں اپنے بہت ہی اہم لمحات کو یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر بالکل ہی کہیں بھلا بیٹھتے ہیں، اس ہی خوف کی بنا میں نے سوچا کیوں

بزم

سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات

https://youtu.be/MlAtmqr1-SU https://youtu.be/xOK4o9vUrhk https://youtu.be/sJieX50brkQ بنانی تھی مدینہ کی ریاست مگر بنیاد تو کوفہ کی رکھ دی بنا ہے حکمراں یہ کہہ کے تو کہ کروں گا کوئی نہ میں کام ایسا جو کر گئے آج سے پہلے کے حاکم مگر پھر آج تو مجبور کیوں ہے کبھی جو کام تھے یزید کے وہ وہی ہے آج تیری مجبوری نہ ہو جس دیس میں انصاف پورا جہاں قانون کا نہ ہو بسیرا ہم ایسے دیس کے باسی ہیں لوگوں جہاں مجرم کو دی جاتی ہے جینے کی آزادی جو معصوم محب وطن ہیں اسی پہ تانی بندوقیں گئی ہیں بہایا خون مظلوموں کا ایسے فلک بھی رو پڑا ہے آج دیکھو بچھڑے بچوں سے ہیں ماں باپ ان

بزم

قصہ سیلفی اسٹک کا

    ایک دن قریباً 6 سال پہلے، میرے پاس میرے دوست زبیر کا فون آیا کے اس ویک اینڈ پر  سب  لوگ سمندر کی سیر کو جائیں گے، وہ بھی کشتی پر سوار ہو کر۔ سونے پر سہانہ یہ کے تازہ تازہ گرما گرم سی فوڈ بھی نوش کرنے کو ملے گا جو کے کشتی پر ہی تیار کیا جائے گا۔۔۔ شکر ہے شق یہ نہیں رکھی گئی کے جو جتنا شکار کرے گا اتنا ہی کھا پائے گا، اگر ایسا ہوتا تو بس ہو گیا تھا کام۔۔۔ فکر نا فاقہ عیش کر کاکا کی بنیاد پر ہم گھر لوٹتے اور شاید خالی پیٹ ہی سوجاتےپر اللہ تو غیب سے عطا کرنے والا  ہے تو وہ ہمارے پاپی پیٹ کا کیوں نا خیال کرتا       خیر حامی پرجوش طریقے سے بھر دی گئی کیونکہ کھانے کے علاؤہ