قصہ کہانی

اخلاقیات کی چائے، ادھار کے کپ

حضرت کی انٹری ہمیشہ دھواں دار ہوتی، جیسے کسی پارلیمانی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر آئے ہوں یا کسی نوٹنکی کا مرکزی کردار اسٹیج پر قدم رکھ رہا ہو۔ چہرے پر گہری سنجیدگی، ماتھے پر فکرمندی کی پانچ لکیریں، اور زبان پر ہمیشہ وہی گھسا پٹا نعرہ:"تم جیسی سروس دو گے، ویسی ہی سروس ملے گی!" محفل میں آتے ہی ایسا تاثر دیتے جیسے زمین پر اخلاقیات کا آخری ستون بس یہی بچا ہے، باقی سب تو لوٹ مار میں لگے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اگر ان کے نام کے آگے سرکاری معلمِ اخلاقیات لکھ دیا جائے تو شاید زیادہ مناسب رہے۔آج بھی وہ چائے کے کھوکھے پر بیٹھتے ہی اپنے عالمانہ خطبے کے لیے کمر کس چکے تھے۔ چائ

قصہ کہانی

تشنگی – حصہ دوئم

آخری قسط (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); آخری دفعہ وہ بچپن میں دادا کے ساتھ مسجد آیا تھا۔ قریباً دس سال بعد اب سترہ برس کی عمر میں اس نے مسجد میں دوبارہ قدم رکھا۔ وضو کیا، نماز پڑھی ، دعا میں خوب گڑگڑایا،خوب آنسو بہائے اور توبہ کی اور اپنے بھائی کیلیے دعائیں مانگیں۔ واپس گھر آکر، حادثے کے بعد پہلی دفعہ کسی بھی طرح کے بوجھ کے بغیر سویا۔ جاگنے کے بعد اس نے فون میں وہی ویڈیو نکالی، اور اس کے بذریعہ ویڈیو کے پیج پر گیا اور اسے فالو کیا اور پھر باقی ویڈیوز دیکھنے لگ گیا۔ وقت کیساتھ آہستہ آہستہ وہ بدلنے لگا، اس پیج کے ایڈمن ناصر سے اس کے

قصہ کہانی

تشنگی

قسط نمبر 1 رات کا قریب تیسرا پہر شروع ہو رہا تھا کہ ڈی۔ایچ۔اے  کی ا یک سڑک کاسناٹا فلک شگاف میوزک اور تیز رفتار انجن کی گر گراہٹ سے ٹوٹ گیا۔ اس نے سگرٹ سلگایا اور گاڑی کی اسپیڈ اور بڑھادی ۔ میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ اتنی مت پیو لیکن تم کسی کی سنتے ہی کب ہو؟ زیشان نے اسے بازو سے پکڑ کر آہستہ ہونے کے لیے سمجھاتے ہوئے کہا۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); وہ  پھر بھی آہستہ ہونے میں نہ آ رہا تھا اور مسلسل پیڈل دباتا  چلا جا رہا تھا کہ یک دم نہ جانے کہاں سے سامنے ایک چھوٹا سا کتا  آ گیا!  اُس نے پوری جان سے اس

قصہ کہانی

تنہائی

میں اکثر سوچتا ہوں کے درحقیقت یہ خوف ہے کیا؟ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); عام فہم انداز میں تو شاید کسی خطرے کے پیش نظر دل میں پیدا ہونے والا جذبہ ہو پر ہر خوف کا جنم ایک وسوسے سے ہوتا ہے، پر وہیں میں سمجھتا ہوں کے اگر خوف کو قابو کرنا ہے تو گھر سے نکل کر دنیا کا سامنا کرنا چاہیئے، کیوں کے بہادر وہ نہیں جو شیر کو مار ڈالے، بہادر وہ ہے جو شیر کے خوف کو فتح کرکے اس کا سامنا کرے، میرا خوف دنیا نہیں اور نا ہی جن بھوت جنتر منتر یا کوئی دشمن ہے میرا خوف میرا وسوسہ ہے جو مجھے میری تنہائی کی یاد دلاتا ہے میرے سونے کے بعد..

قصہ کہانی

ایک تھی چڑیا ایک تھا چڑا

ايک تھی چڑيا، ايک تھا چڑا، چڑيا لائی دال کا دانا، چڑا لايا چاول کا دانا، اس سے کچھڑی پکائی، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائی، آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کی کچھڑی بھی بہت ہوتی ہے۔ چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، چواليس حصے تو لے، اے باگھوان پسند کر يا نا پسند کر ۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر ، چڑے نے اپنی چونچ ميں سے چند نکات بھي نکالے، اور بی بی کے آگے ڈالے۔ بی بی حيران ہوئی بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کي