حضرت کی انٹری ہمیشہ دھواں دار ہوتی، جیسے کسی پارلیمانی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر آئے ہوں یا کسی نوٹنکی کا مرکزی کردار اسٹیج پر قدم رکھ رہا ہو۔ چہرے پر گہری سنجیدگی، ماتھے پر فکرمندی کی پانچ لکیریں، اور زبان پر ہمیشہ وہی گھسا پٹا نعرہ:
“تم جیسی سروس دو گے، ویسی ہی سروس ملے گی!”
![A person in a white shirt stands in a traditional tea shop with brass teapots and cups on display.](https://i0.wp.com/www.usmanaman.com/wp-content/uploads/2025/02/Leonardo_Phoenix_10_A_hyperrealistic_and_cinematic_photograph_3-1024x579.jpg?resize=640%2C362&ssl=1)
محفل میں آتے ہی ایسا تاثر دیتے جیسے زمین پر اخلاقیات کا آخری ستون بس یہی بچا ہے، باقی سب تو لوٹ مار میں لگے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اگر ان کے نام کے آگے سرکاری معلمِ اخلاقیات لکھ دیا جائے تو شاید زیادہ مناسب رہے۔
آج بھی وہ چائے کے کھوکھے پر بیٹھتے ہی اپنے عالمانہ خطبے کے لیے کمر کس چکے تھے۔ چائے والے کی معمولی سی غلطی انہیں وہ موقع فراہم کر گئی، جس کے لیے وہ نجانے کتنے دنوں سے بے تاب تھے۔
“چائے میں مزہ نہیں ہے، اسی لیے تمہاری دکان نہیں چل رہی!”
چائے والے نے مسکرا کر کہا، “جناب، چائے تو آپ ادھار پی رہے ہیں!”
حضرت کا رنگ ایک لمحے کو فق ہوا، مگر فوراً خود کو سنبھالا اور مسکرا کر بولے،
“یہ تمہاری سروس کا امتحان ہے!”
![A person sitting at an outdoor café table, stirring a cup of steaming tea with a spoon. The person's face is blurred. The table is scattered with loose tea leaves. The background shows a street with colorful signs and buildings.](https://i0.wp.com/www.usmanaman.com/wp-content/uploads/2025/02/Leonardo_Phoenix_10_In_a_dramatically_lit_hyperrealistic_scene_3-1-1024x579.jpg?resize=640%2C362&ssl=1)
یہ حضرت بھی بڑے نابغہ روزگار تھے۔ ان کے کوئی رشتے دار ترکی میں اپنا جواز السفر “گم” کرکے کسی نہ کسی طرح یونان جا پہنچے تھے، اور اب یونان کو مکمل یورپ سمجھ کر اس کی اتنی وکالت کرتے جیسے یورپی یونین کے تاحیات سفیر ہوں۔ البتہ یہ بات اور تھی کہ اب وہ وطن بازگشت ہو کر پاکستان لوٹ آئے تھے، مگر پھر بھی ہر محفل میں یونان کے قصے کچھ ایسے سناتے کہ لگتا تھا بندہ نیشنل جیوگرافک کی کوئی نایاب دستاویزی فلم دیکھ رہا ہو۔ اگر کسی نے ذرا سا بھی شک ظاہر کیا تو فوراً ہاتھ نچا کر، گردن جھٹک کر اور بھنویں سکیڑ کر بولتے، “بھائی، میں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے!” جیسے چشم دید گواہ نہ ہوئے، بلکہ یونانی پارلیمنٹ کے رکن ہوں۔
مگر سب سے بڑا لطیفہ تب ہوتا جب کوئی ان سے پوچھ بیٹھتا، “قبلہ! آپ خود کیوں لوٹ آئے؟” تو لمحے بھر کو کھسیانے ہو جاتے، مگر پھر فوراً سینہ تان کر کہتے، “بس، اپنے وطن کی یاد آ گئی تھی!” جیسے یونان میں پورا ایتھنز انہیں روکنے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا تھا، ویزے کی توسیع کے لیے حکومتی نمائندے ان کے در پر حاضری دے رہے تھے، مگر انہوں نے حب الوطنی کی عظیم قربانی دے کر اپنا دل پتھر کر لیا اور “رضاکارانہ” طور پر وطن بازگشت کو ترجیح دی!
بس جناب، یوں تو کہتے تھے کہ یورپ میں لوگ اخلاقیات کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہیں، مگر جب یورپی سفارت خانے نے ان کے بازگشت نامہ پر مہر لگائی، تو واپسی کے سفر میں ہر ایئرپورٹ والے کو کوستے آئے کہ “دیکھا! یہ ہے تمہاری یورپی تہذیب؟” جیسے یورپ نے انہیں تخت سے اتار کر جلاوطن کر دیا ہو، اور اب پاکستان میں محض عارضی قیام فرما رہے ہوں!
![A traveler with a large backpack and a suitcase stands on a cobblestone street, looking towards a grand archway in a European city.](https://i0.wp.com/www.usmanaman.com/wp-content/uploads/2025/02/Karachi-man-as-a-bag-packer.jpg?resize=640%2C640&ssl=1)
خود یہ محترم بھی اپنے یونانی بازگشت رشتے دار کے علاؤہ خود سے کسی دور میں بڑی “سیاحت” فرما چکے تھے۔ برسوں پہلے کسی نہ کسی طرح پیسے جوڑ کر کسی یورپی ملک میں ایک مہینہ گزار آئے تھے، مگر آج بھی یوں ذکر کرتے ہیں جیسے ان کی پیدائش وہیں ہوئی ہو اور پاکستان محض وزٹ ویزا پر آئے ہوں۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ پورے ایک مہینے میں کسی ہوٹل کے دروازے تک نہ گئے، بس مفت رہائش ڈھونڈنے کے نت نئے جتن کرتے رہے۔ کبھی کسی جان پہچان والے کے ہاں “دور کے رشتہ دار” بن کر جا دھمکتے، تو کبھی کسی پاکستانی کی بو سونگھ کر اس کے مہمان بن جاتے، اور پھر اتنے دھڑلے سے اس کے دسترخوان پر ہاتھ صاف کرتے جیسے محسنِ یورپ ہوں۔ کھانے کے بعد، بڑے مزے سے سگریٹ سلگا کر اسی پاکستانی کی مہمان نوازی پر چند “تعمیری” تنقیدیں بھی کر دیتے، اور جب یورپ میں اخلاقیات کا پرچار کرتے، تو لگتا تھا جیسے یورپ کو شرافت کا درس بھی انہوں نے ہی دیا تھا۔
اور ہاں، ایک احسان ضرور تھا جو ہم سب پر رکھتے تھے کہ “بس وہاں پھسلنے سے بچ گئے، ورنہ دنیا بھر میں لوگ گوروں کے دیس جا کر سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں!” گویا صاحب نے اپنی جیب بھری نہ سہی، مگر ایمان کی پونجی سنبھالے رکھی—اور یہ قربانی شاید یورپ کے کسی چرچ میں سونے کے الفاظ میں لکھی جا چکی ہو!
“یورپ میں یہ سب نہیں ہوتا!” حضرت نے تاثر دیا جیسے ابھی ابھی پیرس سے واپسی ہوئی ہو۔
میں نے قہقہہ لگایا، “قبلہ! آپ کو پتا ہے کہ عوام سب سروس پروائیڈر نہیں ہوتے؟”
“کیا مطلب؟” حضرت نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
“مطلب یہ کہ نہ دنیا تمہاری ملازم ہے اور نہ ہر مسئلے کا تعلق سروس سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ہماری اپنی انا کسی چھوٹے سے واقعے کو جنگ کا میدان بنا دیتی ہے۔ ورنہ حقیقت میں وہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا، جتنا ہم نے اپنے ذہن میں اسے بنا لیا ہوتا ہے!”
![Three men in a lively market setting, engaged in an animated conversation, with steam rising from a cooking pot in the foreground.](https://i0.wp.com/www.usmanaman.com/wp-content/uploads/2025/02/Leonardo_Phoenix_10_a_hyperrealistic_and_cinematic_photograph_1-1-1024x579.jpg?resize=640%2C362&ssl=1)
حضرت نے گہری سانس لی اور فلسفیانہ انداز میں بولے،
“یہ مسئلہ تم جیسے لوگوں کا ہے، جو حقیقت کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں!”
میں نے قہقہہ لگایا، “اور آپ جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب دلیل کمزور پڑنے لگے تو فلسفہ بیچ میں لے آتے ہیں!”
ابھی بحث گرم تھی کہ حضرت نے اچانک توپوں کا رخ یورپ کی طرف موڑ دیا۔ کہنے لگے،
“دیکھو یورپ میں جاؤ، تمہیں پتہ چلے گا اصل اخلاقیات کسے کہتے ہیں۔ وہاں کا ہر شہری ایماندار، دیانتدار اور اصولوں کا پکا ہوتا ہے!”
میں نے سرد آہ بھری، جیسے کسی استاد کی نالائق شاگرد کو دیکھ کر افسوس کرنے کی عادت ہو۔
“قبلہ! یورپ کا زیادہ تر اخلاقیات کا ڈھانچہ پولیس کے ڈنڈے پر کھڑا ہے۔ جیسے ہی ڈنڈا ہٹے، آدھے مفت خورے نکل آئیں گے، باقی کے دونمبرئیے!”
“کیا فضول بات کر رہے ہو میاں تم!” حضرت کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
“حضرت! وہاں کے بھی کئی لوگ ایک نمبر کھا کر دو نمبر کرتے ہیں، ادھر بھی ٹیکس چور ملیں گے، اور کام چور بھی۔ ہاں، ایک فرق ضرور ہے: وہاں کا نظام انہیں قابو میں رکھتا ہے۔ پولیس کا ڈنڈا ان کے ضمیر سے زیادہ مضبوط ہے!”
“یہ تو جھوٹ ہے!” حضرت چیخے۔
“جھوٹ؟ وہاں کے لوگ بھی ہر مہینے کی آخری تاریخوں میں قرضے لے کر مہینہ پورا کرتے ہیں، علاج کے لیے انشورنس کے محتاج ہیں، اور اسپتالوں میں اپائنٹمنٹ کے انتظار میں کئی لوگ سورگ لوک پدھار جاتے ہیں!”
“نہیں، وہاں سب کچھ شفاف ہوتا ہے!” حضرت نے آخری پتہ پھینکا۔
“ہاں، اتنا شفاف کہ ٹیکس کاٹنے کے بعد جو بچتا ہے، وہ کرائے، یوٹیلیٹی بلز اور بیمہ میں نکل جاتا ہے۔ اصل میں یورپ کا ہر شخص مشین کی طرح کام کرتا ہے، اور وہ بھی اس خوف میں کہ اگر ذرا سستی کی تو بینک قرضے، بل، اور ٹیکس اسے نچوڑ کر رکھ دیں گے!”
![Two men sitting in a busy market street, holding ornate cups with steam rising from them.](https://i0.wp.com/www.usmanaman.com/wp-content/uploads/2025/02/Leonardo_Phoenix_10_A_hyperrealistic_and_cinematic_black_and_w_1-1024x579.jpg?resize=640%2C362&ssl=1)
حضرت کے چہرے پر وہی تاثرات تھے جیسے کوئی پھپھو اپنی بہو کے ہاتھ میں نئے زیور دیکھ لے۔ میں نے مزید نمک چھڑکتے ہوئے کہا،
“یورپ میں اخلاقیات اچانک تب نمودار ہوتی ہے جب سامنے کیمرہ ہوتا ہے، یا پھر کوئی افسر فائن بھرنے کو کھڑا ہو!”
حضرت نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ میں نے غور سے دیکھا، ان کے چہرے پر ایک عجیب نرم سی جھلک تھی، جیسے کوئی عورت اندر کہیں سے جھانک رہی ہو۔ سچ پوچھیں تو ہر مرد کے اندر ایک عورت چھپی ہوتی ہے، جو بعض اوقات اتنی حاوی ہو جاتی ہے کہ سو بازاری عورتوں پر بھاری پڑتی ہے۔ یہ وہی عورت تھی جو حضرت کے اندر جاگ اٹھی تھی—شکوے، شکایتیں، بات بے بات کی ضد اور انا کی جنگ!
یہ وہی عورت تھی جو ان کی آواز میں کپکپاہٹ بن کر شامل ہو چکی تھی، آنکھوں کی بے چینی میں لرز رہی تھی، اور ان کے ماتھے پر بار بار پسینے کی نمی بن کر ابھر رہی تھی۔
![Two men sitting in a bustling street market, holding ornate cups with steam rising from them.](https://i0.wp.com/www.usmanaman.com/wp-content/uploads/2025/02/Leonardo_Phoenix_10_A_hyperrealistic_and_cinematic_black_and_w_0-1024x579.jpg?resize=640%2C362&ssl=1)
اتنے میں چائے والا آیا اور بولا، “حساب، جناب!”
حضرت نے جیب ٹٹولے بغیر ہی فوراً نشست سے اٹھنے کی کوشش کی، جیسے فرش پر کانٹے اگ آئے ہوں۔ پھر ایک زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ بولے،
“آج ذرا جلدی میں ہوں، کل دے دوں گا!”
چائے والے نے بھی مسکرا کر کہا، “جیسی سروس دیں گے، ویسی ہی سروس پائیں گے نا!”
میں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ حضرت کی شکل دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آج پہلی بار انہیں اپنی ہی بات سمجھ میں آئی ہے، مگر انہوں نے ماننا پھر بھی نہیں تھا!
![Two people interacting on a busy street with one holding a steaming teapot.](https://i0.wp.com/www.usmanaman.com/wp-content/uploads/2025/02/Leonardo_Phoenix_10_A_hyperrealistic_and_cinematic_photograph_2-2-1024x579.jpg?resize=640%2C362&ssl=1)
ہمیشہ کی طرح کیا خوب لکھا۔ ماشاءاللہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ہاں الفاظ کی روانی، شائستگی اور شگفتگی ملتی ہے۔ ایسا پیرا لکھنا، صرف آپ ہی کا خاصہ ہے۔
یوں لکھتے رہئیے ۔
زور قلم اور زیادہ ہو۔
👍
Bhtreen ❤️
I’m sorry, Usman. I found that the .message behind the article still eluded me.
However ur write was good as always
I would like film it.. 👏 👏 👏