قصہ کہانی

اخلاقیات کی چائے، ادھار کے کپ

حضرت کی انٹری ہمیشہ دھواں دار ہوتی، جیسے کسی پارلیمانی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر آئے ہوں یا کسی نوٹنکی کا مرکزی کردار اسٹیج پر قدم رکھ رہا ہو۔ چہرے پر گہری سنجیدگی، ماتھے پر فکرمندی کی پانچ لکیریں، اور زبان پر ہمیشہ وہی گھسا پٹا نعرہ:"تم جیسی سروس دو گے، ویسی ہی سروس ملے گی!" محفل میں آتے ہی ایسا تاثر دیتے جیسے زمین پر اخلاقیات کا آخری ستون بس یہی بچا ہے، باقی سب تو لوٹ مار میں لگے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اگر ان کے نام کے آگے سرکاری معلمِ اخلاقیات لکھ دیا جائے تو شاید زیادہ مناسب رہے۔آج بھی وہ چائے کے کھوکھے پر بیٹھتے ہی اپنے عالمانہ خطبے کے لیے کمر کس چکے تھے۔ چائ