قصہ کہانی

اخلاقیات کی چائے، ادھار کے کپ

حضرت کی انٹری ہمیشہ دھواں دار ہوتی، جیسے کسی پارلیمانی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر آئے ہوں یا کسی نوٹنکی کا مرکزی کردار اسٹیج پر قدم رکھ رہا ہو۔ چہرے پر گہری سنجیدگی، ماتھے پر فکرمندی کی پانچ لکیریں، اور زبان پر ہمیشہ وہی گھسا پٹا نعرہ:"تم جیسی سروس دو گے، ویسی ہی سروس ملے گی!" محفل میں آتے ہی ایسا تاثر دیتے جیسے زمین پر اخلاقیات کا آخری ستون بس یہی بچا ہے، باقی سب تو لوٹ مار میں لگے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اگر ان کے نام کے آگے سرکاری معلمِ اخلاقیات لکھ دیا جائے تو شاید زیادہ مناسب رہے۔آج بھی وہ چائے کے کھوکھے پر بیٹھتے ہی اپنے عالمانہ خطبے کے لیے کمر کس چکے تھے۔ چائ

بزم

ایک ماں کی خاموش دعا

اسٹوڈنٹ بریانی کی وہ شام مصروف زندگی کے اس ہنگامے میں، کچھ لمحے ہمیشہ کے لیے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یہ نقش، وقت کی گرد پڑنے پر بھی، اپنی چمک نہیں کھوتے۔ ایسا ہی ایک لمحہ میرے ساتھ بھی رونما ہوا۔ جیکب لائن کی وہ شام، جب والد صاحب نے ہمیں اسٹوڈنٹ بریانی کی دعوت پر لے جانے کا وعدہ کیا۔ میں تو صبح سے ہی بےتاب تھا۔ والد صاحب کی ٹویوٹا گاڑی، جو میری پانچ برس کی عمر کی آنکھوں میں کسی ہوائی جہاز سے کم نہ تھی۔ مجھے یاد ہے، جب بھی ہم اس میں سفر کرتے، مجھے لگتا جیسے میں آسمان کو چھو لوں گا۔ میں ہمیشہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر، کھڑکی سے باہر دیکھتا، شام کی روشنیوں کو تماشا