fbpx
Molana

آخری قسط

آخری دفعہ وہ بچپن میں دادا کے ساتھ مسجد آیا تھا۔ قریباً دس سال بعد اب سترہ برس کی عمر میں اس نے مسجد میں دوبارہ قدم رکھا۔ وضو کیا، نماز پڑھی ، دعا میں خوب گڑگڑایا،خوب آنسو بہائے اور توبہ کی اور اپنے بھائی کیلیے دعائیں مانگیں۔ واپس گھر آکر، حادثے کے بعد پہلی دفعہ کسی بھی طرح کے بوجھ کے بغیر سویا۔

جاگنے کے بعد اس نے فون میں وہی ویڈیو نکالی، اور اس کے بذریعہ ویڈیو کے پیج پر گیا اور اسے فالو کیا اور پھر باقی ویڈیوز دیکھنے لگ گیا۔

وقت کیساتھ آہستہ آہستہ وہ بدلنے لگا، اس پیج کے ایڈمن ناصر سے اس کے اچھے مراسم بن چکے تھے اور وہ اسے اپنی کہانی بھی سنا چکا تھا۔ اب وہ ہر نماز پابندی سے پڑھتا تھا اور مذہبی پیجز پر کافی سرگرم رہنے لگا تھا۔ ناصر نے ایک دن اسے ایک پیج کا لنک بھیجا اور بتایا کہ بہت اچھا اور معلوماتی پیج ہے۔ اس نے پیج فالو کیا اور اور جیسے جیسے وہ اس پیج کا مواد دیکھتا گیا اس کا خون کھولتا گیا۔ اس پیج پر طرح طرح کی ویڈیوز کے ذریعے یہ بتایا گیا تھاکہ کس طرح پاکستان کے لوگوں نے دین کو چھوڑ دیا ہےاور کس طرح پاکستان کے ادارے اور افواج امریکہ کی جنگ لڑ رہے اور مسلمانوں کو مار رہےاور یہ سب صرف پیسوں کی خاطرکیا جاتا۔

حماد دن بہ دن اس دلدل میں دین کے نام پر گہرے سے گہرا  دھنستا گیا۔ کچھ دن پرکھنے کےبعد ناصر نے اسے ایک وٹس ایپ گروپ میں بھی شامل کردیا جس کا مقصد ناصر نے اسے مذہبی مسائل کے بارے میں ایک دوسرے سے  معلومات بانٹنا  بتایا۔ وہاں اسے اور بھی بہت سے اپنے جیسے جوان ملے جو پہلے بھٹکے ہوئے تھے اور اب اپنے گناہوں سے نجات تلاش کر رہے تھے۔ گروپ میں روز ڈھیروں ویڈیوز شئیر کی جاتی جن میں زیادہ تر بتایا جاتا کہ کیسے جوانوں کے گناہوں کا کفارہ صرف جہاد ہے اور جہاد کیسے ان جوانوں کو ان کے گناہوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ مزید کچھ دنوں بعد کچھ ایسا مواد شئیر کیا جانے لگا جس میں پاکستان کے اداروں کو ایسا دکھایا گیا کہ وہ مظلوم عوام کا بے دریغ قتل کرتے ہیں اور یہ اور ان کیخلاف آواز نہ اٹھانے والے اسلام سے خارج ہو چکے ہیں  اور کیسے ان کو قتل کرنا نہ صرف جائز بلکہ ذمہ دارمسلمانوں پر فرض ہے۔ مرتدوں کو قتل کرنے والے کو کتنے انعامات سے نوازا جائے گا۔ آہستہ آہستہ جوانوں  کو جہاد کیلیے مائل کیا گیااور پھر کورنگی کی ایک مسجد میں باقاعدہ محفل منعقد کی جانے لگی۔ اس گروپ کا  امیرخراسانی نام کا ایک افغانی تھا جو کہ جوانوں کو باقاعدہ مسجد کے تہ خانے میں تربیت بھی دیتاتھا۔

حماد نے گھر جانا چھوڑ دیا تھا ، انجم ویسے ہی لندن میں رہتا تھا اور کم ہی پاکستان آتا تھا۔ خراسانی نے اسکے بھائی کے غم  اور دماغی حالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ایک قضافی نام کے افغان لڑکے کیساتھ ملکرڈیفنس کے ایک سینما  گھر میں فدائی حملے کیلیے تیار کر لیا۔۔۔۔

اونچے میوزک سے لیکرٹخنوں سے اونچی شلوار تک کا سفر اس نے اس قدر تیزی سے کیا کہ وہ صحیح غلط کی پہچان ہی نہ کر سکا۔ وہ ایک انتہا سے دوسری انتہا پرآبیٹھا تھا۔ وہ نڈھال قدموں اور اشکبارآنکھوں سے اپنی غلطیوں پر ملال کرتے ہوئےایک سمت چلتا جا رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کبھی کلمہ پڑھتا اپنے بھائی کی باہوں میں دم توڑتا  بچہ آجاتا تو کبھی اپنےبھائی کا خون میں شرابور بے جان جسم آجاتا، دونوں حادثات کا زمہ دار وہی تھا، لیکن اب اس نے ایک فیصلہ اور کیا تھا، مزید حادثات کو بچانے کا فیصلہ ۔۔۔

۔۔۔ خراسانی کچھ جوانوں کی جماعت کومرتدوں کیخلاف لڑنے کی تربیت دے رہا تھا اور ساتھ ساتھ جنت کےحسین مناظر انکے  سامنے بیان کر رہا تھا اور پردے کی اوٹ میں پاس ہی ایک گہرے رنگ اور باریک مونچھوں والا درمیانی عمر کا شخص ایک سیاہ بیگ تھامے بیٹھا تھا۔ ناصر اس شخص کے پاس بیٹھا بیگ میں سے ڈالرز کی گڈیاں نکال نکال کر گن رہا تھا کہ تہ خانے کا دروازہ چرچراہٹ سے ُکھلا  اور حماد اندر داخل ہوا۔ ناصرچونکا اور گھبراہٹ میں اس سے ہاتھ میں پکڑے ہوئے نوٹ گر کر فرش پر بکھر گئے۔ اتنے میں خراسانی بھی باہر آگیا اور حماد کو دیکھ کر چونک گیا ،

۔۔ تم  !  ہ   ہ   ہ  حماد بیٹا تم  تو   آج  دین  پر فدا  ہونے  گئے  تھے ؟؟؟  تم ادھر کیسے   ! ۔۔۔۔

جی مولوی صاحب ، وہ  دراصل وہاں سب کافر اور مرتد قزافی نےہی مار دئے تھے۔ کچھ بچ گئے ہیں، انہیں میں جہنم واصل کرنے آگیا ہوں  !۔۔۔۔

اور یہ کہتے ہی اس نے ریموٹ کا بٹن دبا  دیا

Suicide Bomber
حماد خودکش دھماکا کردیتا ہے

ختم شد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *