قسط نمبر 1
رات کا قریب تیسرا پہر شروع ہو رہا تھا کہ ڈی۔ایچ۔اے کی ا یک سڑک کاسناٹا فلک شگاف میوزک اور تیز رفتار انجن کی گر گراہٹ سے ٹوٹ گیا۔ اس نے سگرٹ سلگایا اور گاڑی کی اسپیڈ اور بڑھادی ۔
میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ اتنی مت پیو لیکن تم کسی کی سنتے ہی کب ہو؟
زیشان نے اسے بازو سے پکڑ کر آہستہ ہونے کے لیے سمجھاتے ہوئے کہا۔
وہ پھر بھی آہستہ ہونے میں نہ آ رہا تھا اور مسلسل پیڈل دباتا چلا جا رہا تھا کہ یک دم نہ جانے کہاں سے سامنے ایک چھوٹا سا کتا آ گیا! اُس نے پوری جان سے اسٹیرنگ موڑ دیا اور گاڑی سڑک کے ساتھ والی فٹ پاتھ سے ٹکرا کر قلابازیاں کھانے لگی۔۔۔
اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کےپورے جسم کا بوجھ اس کے سر پر آگیا ہے اورپورا جسم درد کی شدت سے ٹوٹ رہا تھا۔ اس کے لیئے آنکھیں کھولنا محال ہو رہا تھا، ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے چہرے پر کچھ جما سا ہوا ہے اور اسے اپنے پاؤں بھی محسوس نہیں ہو رہے تھے۔ بہت کوشش اور درد کی شدت پر قابو کرتے ہوے اس نے تھوڑی سی آنکھیں کھولیں۔
اس کے چہرے پر خون جم چکا تھا اور وہ گاڑی کی سیٹ میں اُلٹا لٹک رہا تھا۔ اپنے زخموں کا اندازہ لگا ہی رہا تھا کہ اس کی نظر ساتھ والی سیٹ پر ذیشان پر پڑی! اُس کے سر سے ابھی بھی خون بہےجا ررہا تھا اور گاڑی کے انجن کا ایک حصہ اس کی چھاتی سے آر پار ہو چکا تھا۔چھوٹے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر وہ اس کی طرف لپک سا پڑا لیکن کوشش کے باوجود وہ اس تک نا پہنچ پایا۔ اس نے پوری جان سے مدد کے لیے آواز لگانا چاہی لیکن اس کی آنکھوں کے سامنے پھر سے اندھیرا چھا نے لگا۔ زندگی میں پہلی دفعہ اسے موت یاد آئی۔ اس کی آنکھیں بند ہوئیں اور اسی دورانیئے میں کہیں دور سے فجر کی آذان کی آواز آنے لگی۔
ہر طرف خون کی مہک اور چیخ و پکار تھی، انسانی جسم کے اعضاء ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ جس طرف نظر جاتی تھی خون میں لتھڑی لعشیں اور زخمی پڑے نظر آرہے تھے۔ ہاتھ میں ریموٹ پکڑے ہوے وہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ قضافی نے اپنا کام کر دیا تھا،اُس نے اپنی جنت کما لی تھی، اور اب اس کی باری تھی اور امیر خراسانی کے مطابق اس کی زندگی کا آخری امتحان۔ اس نے زخمیوں کو بچانے والے لوگوں کے جمگٹھے کی طرف بڑھنا شروع کیا ہی تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز پڑی اور اس کے قدم زمینوں میں گڑ گئے اور اس کے اوپر آسمان پھٹنے سا لگا۔ وہ ایک ۱۰ سے ۱۲ سال کا بچہ تھا جسے دیکھ کر اسے ایک دم سے یادوں کے کسی بھولے ہوئے کونے میں دفن ایک مسکراتا ہوا چہرا نظر آیا۔
وہ بچہ اپنے باپ یا پھر شاید بڑے بھائی کی گود میں سر رکھے اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اور اپنے شفیق باپ کے کہنے پر اپنی اکھڑی ہوئی آواز میں مسلسل کلمہ پڑھ رہا تھا
لیکن امیرخراسانی نے تو کہا تھا کے
یہ سب کافر اور مرتد ہیں
اس کے دماغ میں عجیب سا دھماکہ ہوا اور اس کا ہاتھ ریموٹ سے ہٹ گیا ۔ زندگی کے ایک نئے انکشاف کے ساتھ وہ نڈھال قدموں سے مڑ کر کسی انجان سمت میں چل دیا۔
حماد بیٹا آنکھیں کھولو، کھولو نا آنکھیں، حماد، حماد بیٹا
اس نے آہستہ آہستہ سے اپنی نڈھال آنکھیں دور سے آتی ہوئی اپنے باپ کی آواز پر کھولنےکی کوشش کیں۔ وہ کسی اسپتال کا کمرہ لگ رہا تھا۔ اسے دھندلا دھندلا سا اپنے والد کا چہرا نظر آیا جو اسے فکر مند نظروں سے دیکھتے ہوے مسلسل بلا رہے تھے۔
حماد نے مسکرا کر باپ کو دیکھا اور کچھ کہنا چاہا لیکن اسے کھانسی نے آ لیا۔ ساتھ کھڑی نرس جلدی سے آگے بڑھی اور ساتھ پڑے میز سے گلاس کو اٹھا کر اس کے منہ سے لگا دیا اور اسے سہارا دے کر پانی پلانے لگی۔
کچھ دیر میں اس کی طبعیت سنبھلی تو اس نے ساتھ بیٹھے والد کی طرف دیکھاتو نجم صاحب نے بیٹے کی طرف دیکھ کرمسکرا دیئے ۔ باپ کی مسکراہٹ میں عجیب سا درد دیکھ کر اسے ایک دم جھٹکا سا لگا جیسے کچھ یاد آگیا ہو،
“بابا ذیشان کہاں ہے؟”
یہ سوال سن کر نجم صاحب کی آنکھوں سے یک دم کچھ آنسو گر گئے، جو وہ چاہ کر بھی اس سے نا چھپا سکے اور ان آنسوؤں سے حماد کو اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ اسے حادثے والی رات کا وہ بھیانک منظر یاد آگیا جو اس نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر دیکھا تھا اور جسے وہ صرف ایک بھیانک خواب سمجھ رہا تھا۔ اسے اپنا تکیہ بھیگا ہوا محسوس ہوا تو پتا چلا کہ نجانے کب سے اس کے آنسو بہ رہے تھے۔ نجم صاحب آگے بڑھے اور انہوں نے بیٹے کو زورسےگلے لگا لیا۔
اس کی حالت ذرا بہتر ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ قریباًایک ماہ سے بیہوش تھا، اس کا چھوٹا بھائی زیشان اسی رات فوت ہو گیا تھا۔ہوش آنے کے کچھ ہی دن بعد وہ گھر آگیا لیکن اب زندگی بہت بدل چکی تھی اور وہ بھی۔اپنی غلطی کی وجہ سے اس نے اپنے سب سے قریبی ساتھی اور عزیز دوست کو کھو دیا تھا۔
اپنی بےمقصد زندگی سے وہ روز بروز تنگ آتا جا رہا تھا۔ شدید زہنی دباؤ اور ڈپریشن نے اسے اور نڈھال کر دیا تھا۔
ایسے ہی ایک رات بےمقصد بیٹھا وہ فیس بک دیکھ رہا تھا کہ اسے ایک ویڈیو نظر آئی جس میں لکھا تھا کے انسان کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے۔ اس نے لاپرواہی سے ویڈیو سننا شروع کر دی۔
زندگی کا اصل مقصد زندگی ک بعد کی تیاری ہے۔ اس دنیا کا سب کچھ فانی ہے اور ایک نہ ایک دن ختم ہوجاناہے، آج نہیں تو کل ہم سب نے مرنا ہے۔ کامیابی اُسی کی ہے جس نے ادھر رہ کر اگلے جہاں کا سکون کما لیا، اس دنیا میں بھی سکون اسی کا ہے جس نے دین کو چنا
ایک بہت متاثر کن بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ ایک شفیق سی آواز بولتی جا رہی تھی اور حماد کی توجہ ویڈیو کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی اثناء میں قریب ہی ایک مسجد میں فجر کی نماز کیلیے آذان ہونے لگی تو اسے حادثے والی رات یاد آگئی کہ جب اس کی آنکھ کھلی تھی اوراس نے ذیشان کو دیکھا تھا، اس کی آنکھوں سے بےساختہ آنسو جاری ہو گئے۔ کچھ یاد کرتے ہوئے اسے ایک خیال آیا اور وہ آنسو پونچھ کر باہر کی طرف چل دیا۔
😊 بہت بہت شکریہ ذیشان