fbpx
: A mother offering namaz with a serene smile in a dimly lit, simple Pakistani home, while her young son plays with a toy nearby.

اسٹوڈنٹ بریانی کی وہ شام

مصروف زندگی کے اس ہنگامے میں، کچھ لمحے ہمیشہ کے لیے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یہ نقش، وقت کی گرد پڑنے پر بھی، اپنی چمک نہیں کھوتے۔ ایسا ہی ایک لمحہ میرے ساتھ بھی رونما ہوا۔

جیکب لائن کی وہ شام، جب والد صاحب نے ہمیں اسٹوڈنٹ بریانی کی دعوت پر لے جانے کا وعدہ کیا۔ میں تو صبح سے ہی بےتاب تھا۔ والد صاحب کی ٹویوٹا گاڑی، جو میری پانچ برس کی عمر کی آنکھوں میں کسی ہوائی جہاز سے کم نہ تھی۔ مجھے یاد ہے، جب بھی ہم اس میں سفر کرتے، مجھے لگتا جیسے میں آسمان کو چھو لوں گا۔ میں ہمیشہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر، کھڑکی سے باہر دیکھتا، شام کی روشنیوں کو تماشا کرتا، اور سوچتا کہ کیا فرشتے بھی ایسے ہی اوپر سے دنیا دیکھتے ہوں گے۔شام کی روشنیوں کو تماشا کرتا۔

A busy street scene with people gathered outside the "Student Biryani" restaurant, steam rising from large cooking pots, and cars parked nearby.

وہ جیکب لائن میں موجود اسٹوڈنٹ بریانی کا ایک وسیع احاطہ، جہاں گاڑیاں صف در صف کھڑی تھیں، جیسے کوئی میلہ لگا ہو۔ پہلے ہال میں لوگوں کی قطاریں، پرچیاں لینے والوں کی دھیمی سرگوشیاں، اور بریانی کی خوشبو کا سحر۔ دوسرے ہال سے آتی دیگوں کی بھاپ، زردے کی سنہری چمک، اور کھیر کے مٹی کے کونڈوں سے اٹھتی میٹھی خوشبو کا جادو۔ چمچوں کی ٹنکار ایسی، جیسے کوئی دل کی دھڑکن کو تال دے رہی ہو۔

لیکن اُس شام کا وہ لمحہ، جس نے میری روح کو چھو لیا، کچھ اور تھا۔ جہاں ہماری گاڑی رکی، وہاں ایک پرانا سا رکشہ کھڑا تھا۔ رکشے میں ایک ماں، اپنے شاید آٹھ نو سال کے بیٹے کے ساتھ۔ ماں کی آنکھیں، جیسے چاند کی چاندنی، اپنے بیٹے پر برس رہی تھیں۔ اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ، جیسے کوئی پھول کھل رہا ہو۔ وہ بریانی کا نوالہ اپنے بیٹے کے منہ کی طرف بڑھاتی، اور بیٹے کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دیکھ کر، اُس کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہو جاتی۔

ماں کے ہاتھوں کی حرکت میں ایسی نرمی تھی، جیسے کوئی پھول کی پنکھڑیوں کو سہلا رہا ہو۔ اُس کی انگلیاں بریانی کا نوالہ اٹھاتیں تو ایسا لگتا جیسے کوئی قیمتی موتی کو سنبھال رہی ہوں۔

A woman and a child are sitting in a decorated rickshaw. The woman is feeding the child from a bowl of food. Both are dressed in traditional clothing with intricate embroidery. A blue and yellow auto-rickshaw is parked nearby on the street.

بیٹے کی آنکھیں، چھوٹے چھوٹے تارے سی چمکتیں، اُس کی مسکراہٹ جیسے کسی پھول کی پتیوں پر شبنم کا گرتا ہوا قطرہ، اور ہر نوالے کے ساتھ وہ اپنی ماں کی طرف دیکھ کر “ممم” کی آواز نکالتا، جیسے دنیا کا سب سے لذیذ کھانا کھا رہا ہو۔ ماں کی آنکھوں میں وہ چمک، جو کسی سلطنت سے بڑھ کر تھی۔ اُس کا ہر انداز، ہر اشارہ، محبت کی ایک کہانی بیان کر رہا تھا۔

میری پانچ سال کی معصوم سوچ میں کئی سوال اٹھے۔ کیا یہ دونوں کسی خاص موقع کا جشن منا رہے تھے؟ شاید بیٹے نے اسکول میں کوئی انعام جیتا ہو؟ یا شاید وہ نانا کے گھر جا رہے تھے اور بیچ راستے میں رک گئے؟ یا پھر بیٹے کی فرمائش پر ماں اسے اسٹوڈنٹ بریانی کی سیر کرانے لائی تھی؟ وہ دونوں کسی دوسرے شہر سے آئے سیاح بھی ہو سکتے تھے، جنہوں نے اسٹوڈنٹ بریانی کی شہرت سن رکھی تھی۔ میری چھوٹی سی دنیا میں یہ سوال گھومتے رہے، جن کا جواب میں آج تک نہیں جان سکا۔

ایسا لگتا تھا، جیسے وہ دونوں ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں جہاں صرف محبت ہی کی حکمرانی ہو۔ ماں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ، جیسے کوئی پھول کھل رہا ہو۔ وہ بریانی کا نوالہ اپنے بیٹے کے منہ کی طرف بڑھاتی، اور بیٹے کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دیکھ کر، اُس کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہو جاتی۔

اچانک میرے دل میں ایک لہر سی اٹھی۔ بے ساختہ میں نے اپنی امی کو، جو آگے کی نشست پر تھیں، پیچھے سے گلے لگا لیا۔ میری بانہیں اُن کے گرد ایسے لپٹ گئیں، جیسے کوئی قیمتی خزانہ ہو۔ مجھے ایسا لگا، جیسے ماں کا لمس مجھے اُن تمام چیزوں سے بچا رہا ہو، جن کا مجھے ڈر تھا۔ وہ لمحہ، شاید پہلی بار مجھے یہ احساس دلانے کے لیے کافی تھا کہ ممتا کی قیمت کسی بھی دنیاوی خزانے سے بڑھ کر ہے۔ میرے دل میں ایک خوف سا تھا، کہیں یہ لمحہ کھو نہ جائے، کہیں یہ احساس مدھم نہ پڑ جائے۔

A young boy in the backseat of a car reaches forward to hug his mother, who is seated in the front. The car window shows a bustling city night outside.

آج جب میں سوچتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ خاتون، جن کا نام بھی میں نہیں جانتا، ا اُن کی ممتا کی وہ تصویر میری یادداشت میں ایسے کندہ ہے، جیسے کوئی نقاش نے سنگِ مرمر پر اپنی شاہکار تخلیق کو ابدی کر دیا ہو۔ شاید یہ ممتا کی وہ زبان تھی، جو ہر ماں کے دل میں بولتی ہے، جو ہر بچے کی روح میں بستی ہے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں، کیا اُس خاتون کو پتہ تھا کہ اُن کی محبت کی یہ خاموش عبارت، کسی اور کے دل پر بھی نقش ہو رہی ہے؟ کیا ا اُنہیں معلوم تھا کہ ا اُن کی بے لوث ممتا کی یہ سادہ سی تصویر، کسی کی یادوں کا ایسا حصہ بن جائے گی جو کبھی دھندلی نہیں پڑے گی؟

آج بھی جب کبھی کسی ماں کو اپنے بچے کے ساتھ دیکھتا ہوں، تو وہ رکشہ، وہ خاتون، اور وہ معصوم سا منظر میری آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتا ہے۔ اور میں سوچتا ہوں، کیا ہم اپنی زندگی کے ان خوبصورت لمحوں کو سنبھال کر رکھ پاتے ہیں؟ کیا ہم سمجھ پاتے ہیں کہ کبھی کبھی زندگی کے سب سے بڑے سبق، کسی رکشے میں بیٹھی ایک غریب ماں سے سیکھنے کو ملتے ہیں؟

شاید یہی ماں کی دعا کی خاموش تاثیر ہے، جو ہماری روح کو سنوار دیتی ہے، بغیر یہ ظاہر کیے کہ ہمیں یہ سب کہاں سے ملا۔ عین ممکن ہے کہ یہی وجہ ہے کہ میں آج تک اُس خاتون کو پہچان سکتا ہوں۔ کیونکہ اُنہوں نے مجھے سکھایا کہ محبت کی زبان خاموش ہوتی ہے، ممتا کا اظہار الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا، اور کبھی کبھی زندگی کے سب سے قیمتی تحفے، ہمیں بغیر مانگے مل جاتے ہیں۔

A shaven, chubby man in his late twenties, dressed smartly, stands in front of a wall and gazes intently at a family photo. The photograph features his parents, himself, and his sister during their teenage years, with a classic 1985-era sedan in the background.
Tagged With:

8 thoughts on “ایک ماں کی خاموش دعا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *