آج کی دنیا کو ایک ایسی کیفیت کا سامنا ہے جب انسان بیماری کے ساتھ ساتھ اکیلے پن کی اذیت سہنے پر بھی مجبور ہے اور پھر اس پر ستم یہ کہ انسان اپنے پیاروں کی حفاظت کی خاطر خود اپنے آپ کو تنہائی میں قید کر تا ہے۔ ایسے میں ایک سنگین بیماری اس وقت اور زیادہ سنگین بن جاتی ہے جب آپ دیار غیر میں اپنوں سے دور ہوں اور پھر آپ کسی دوسری ایسی زبان سے بھی مکمل طور پر ناآشنا ہوں جس میں بات کر کے آپ اپنی تکلیف دوسروں کو بتا سکیں اور مدد لے سکیں۔
سلمان الشریف، سعودی عرب میں اس ٹیم کے ممبر ہیں اور رضاکارانہ طور پر ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے ،جو دوسرے ممالک خصوصاً ایشیائی ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سعودی عرب میں مقیم ہیں، مگر عربی یا انگریزی زبان نہیں جانتے اور کرونا کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کی کہانی سلمان الشریف نے سنائی
سلمان الشریف سعودی ریاست کے ان ۱۵۷۰۰۰،افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے مارچ میں شروع ہونے والی’’ ہیلتھ رضاکارانہ اسکیم‘‘ پر دستخط کیے۔اور صرف مکہ مکرمہ میں اب تک ۸۲۸۲ رضاکاروں نے وزارت صحت کی تربیت مکمل کرنے کے بعد کام کا آغاز کردیا ہے۔ ان میں پینتالیس افراد پر مشتمل ایک ایسی ٹیم بھی ہے جو تیرہ سے زائد زبانیں جانتے ہیں ۔جو لوگوں کو مختلف زبانوں میں کرونا سے متعلق معلومات اور مدد فراہم کرتے ہیں۔
سلمان الشریف کا کہنا تھا کہ میں تیس سال کے اس ہندوستانی شخص کی ایک فون کال نہیں بھول سکتا جو مکہ مکرمہ میں تنہا رہتا تھا۔ وہ کرونا کا شکار ہو چکا تھا وہ اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتا تھا اس نے مدد کے لیے متعدد بار کال سینٹر کال کی۔ کئی ناکام کالز کے بعد اس کی کال مجھ سے ملی اور وہ یہ سن کر رونے لگا کہ میں اس سے اردو میں بات کر رہا ہوں وہ خوف کے مارے بار بار کہ رہا تھا میں اپنے گھر والوں سے دور نہیں مرنا چاہتا۔
ڈاکٹر عاصمہ مسواق اس کال سینٹر کو چلا رہی ہیں جہاں مختلف زبانوں میں کرونا کے مریضوں کی کالز موصول کی جاتی ہیں۔یہاں موصول ہونے والی تمام کالوں کو ترجمے کی ضرورت پڑنے پر مرکزی ہاٹ لائن سے ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صابر جان بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہ عربی،انگریزی ،فارسی،روسی،ازبک،اردو اور،ترک زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میں اس بات کا شکرگزار ہوں کہ اپنی صلاحیتوں کو اچھے مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب رہا۔
رضاکار سمیر حسین ، جو عربی اور روہنگیا زبان بولتے ہیں ۔اپنی رضاکارانہ خدمات کا تجربہ بیان کرتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے ۔وہ کہتے ہیں جب یہ لوگ ہمارے لیے دعائیں کرتے ہیں تو دلی خوشی ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے ۔مسٹر حسین بھی ان رضاکاروں میں ایک اہم نام ہیں جنہوں نے رمضان کے مہینے میں اپنی خدمات انجام دیں۔
ان تمام تر خدمات میں ’’ہیلتھ رضاکارانہ اسکیم‘‘ کے تحت ایک اور اہم اقدام موبائل ہیلتھ کلینک ہے۔ جو کرونا کے تناظر میں جدید سہولیات سے مزین ہیں۔ چھے کی تعداد پر مشتمل یہ موبائل کلینکس اس علاقے میں پہنچا دئیے جاتے ہیں جہاں کرونا وبا کا سامنا ہوتا ہے ۔ یہ موبائل کلینک چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں اور ہر کلینک اٹھارہ کے سٹاف پر مشتمل ہے۔
بلاشبہ کرونا کے تناظر میں پیدا ہونے والی مایوس کن صورت حال میں یہ رضاکاروں پر مشتمل ٹیم ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہی ہے اور اس مقصد میں پیش پیش رہنے والے تمام رضاکار کسی ہیرو سے کم نہیں جو دن رات کی پروا کئے بغیر مصیبت کے ماروں کی مدد میں مصروف ہیں۔ رضا کار ٹیم کا حصہ ڈاکٹر صابر جان کا یہ جملہ اس کی سچی لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ
’’جب سے مکہ میں کرونا کی وبا پھیلی ہے میں ایک دن کی بھی رخصت لیے بغیر مسلسل کام کر رہا ہوں ۔ ہر دن شام دو بجے سے شام آٹھ بجے تک ہفتے کے آخر تک کام کرتا ہوں۔‘‘
شاید یہ ان ہی ہیروز کی کوششیں ہیں کے دس ہزار سعودی مقیم اس سال معیاری جرّاحی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے حج کا فریضہ ادا کریں گے۔
2 thoughts on “مکہ کے ہیروز”